Wo phir se laut aya hai judaiyon ka sodagar (December)

 وہ پھر سے لوٹ آیا ہے جدائیوں کا سوداگر

پلکوں پہ آنسو سجانے، سانسوں میں آگ لگانے

دِلوں میں درد جگانے، یادوں کی روانی بڑھانے

چاہتوں کو ستانے،محبتوں کو رُلانے

وہ پھر سے لوٹ آیا ہے غموں کا سوداگر

لیکن اب کے بار تیری چالوں میں ہم نہ آئیں گے

اب کے بار ہم سارے وعدے نبھائیں گے

تیری سرد شاموں میں ہم اپنی باہیں سجائیں گے

تیری نرم دھوپ میں ہم پرانے قصے دہرائیں گے

گرتی ہوئی برف میں ہم اسی سے گڈے بنائیں گے

پھر اپنے ہی ہاتھوں سے انہیں بے دردی سے گرائیں گے

تیری ستم گری میں ہم دنیا کو مسکرا کر دکھائیں گے

اور پھر زمانے کو خود تیرے وصال کی خبر سنائیں گے

اگلی دفعہ جدائی کا غم نہیں، دسمبر تیری برسی منائیں گے

Comments

Popular posts from this blog

Mohabbat ki kahani mein koi tarmeem mat karna

Baton baton main bicharney ka ishara kar ke